اچانک جی اٹھیں وہ بام و در ایسا نہیں ہو گا

عرفان صدیقی


خرابہ ایک دن بن جائے گھر ایسا نہیں ہو گا
اچانک جی اٹھیں وہ بام و در ایسا نہیں ہو گا
وہ سب اک بجھنے والے شعلۂ جاں کا تماشا تھا
دو بارہ ہو وہی رقصِ شرر ایسا نہیں ہو گا
وہ ساری بستیاں وہ سارے چہرے خاک سے نکلیں
یہ دنیا پھر سے ہو زیر و زبر ایسا نہیں ہو گا
مرے گم گشتگاں کو لے گئی موجِ رواں کوئی
مجھے مل جائے پھر گنجِ گہر ایسا نہیں ہو گا
خرابوں میں اب ان کی جستجو کا سلسلہ کیا ہے
مرے گردوں شکار آئیں ادھر ایسا نہیں ہو گا
ہیولے رات بھر محراب و در میں پھرتے رہتے ہیں
میں سمجھا تھا کہ اپنے گھر میں ڈر ایسا نہیں ہو گا
میں تھک جاؤں تو بازوئے ہوا مجھ کو سہارا دے
گروں تو تھام لے شاخِ شجر ایسا نہیں ہو گا
کوئی حرفِ دعا میرے لیے پتوار بن جائے
بچا لے ڈوبنے سے چشمِ تر ایسا نہیں ہو گا
کوئی آزار پہلے بھی رہا ہو گا مرے دل کو
رہا ہو گا مگر اے چارہ گر ایسا نہیں ہو گا
بحدِ وسعتِ زنجیر گردش کرتا رہتا ہوں
کوئی وحشی گرفتارِ سفر ایسا نہیں ہو گا
بدایوں تیری مٹی سے بچھڑ کر جی رہا ہوں میں
نہیں اے جانِ من، بارِ دگر ایسا نہیں ہو گا
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست