شام آنکھوں سے یہ کہتی ہے گھر آنے کا نہیں

عرفان صدیقی


خواب آسودگی بال و پر آنے کا نہیں
شام آنکھوں سے یہ کہتی ہے گھر آنے کا نہیں
دل کے آئینے سے رخصت ہوا زنگارِ ملال
اس میں اب کوئی بھی چہرا نظر آنے کا نہیں
اور کیا چاہیے پیروں سے گریزاں ہے زمیں
آسمانوں سے تو اذنِ سفر آنے کا نہیں
فیصلہ کر‘ کم و بیشِ تہہِ دریا کی نہ سوچ
مسئلہ ڈوبنے کا ہے ابھر آنے کا نہیں
کل اسی موج میں اپنا تھا تو بہہ جانا تھا
جانِ من اب کوئی سیلاب ادھر آنے کا نہیں
جس کو ہونا ہے وہ فریاد میں شامل ہو جائے
بے نوا شہر میں بارِ دگر آنے کا نہیں
کوئے قاتل کی روایت ہی بدل دی میں نے
ورنہ دستور یہاں لوٹ کر آنے کا نہیں
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست