قبول تشنہ دلاں ہو سلام پانی کا

عرفان صدیقی


بھرا ہے اشکِ ندامت سے جام پانی کا
قبول تشنہ دلاں ہو سلام پانی کا
زیارت درِ خیمہ نہ تھی نصیب فرات
سو آج تک ہے سفر ناتمام پانی کا
رگِ گلو نے بجھائی ہے تیغ ظلم کی پیاس
کیا ہے خونِ شہیداں نے کام پانی کا
علم ہوا سر نیزہ جو ایک مشکیزہ
شجر لگا سرِ صحرائے شام پانی کا
اگر وہ تشنگی لازوال یاد رہے
کبھی نہ آئے زبانوں پہ نام پانی کا
اسے تلاش نہ کر دشت کربلا میں کہ ہے
ہمارے دیدۂ تر میں قیام پانی کا
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست