عشق ہی تنہا نہیں شوریدہ
سر میرے لیے
حسن بھی بیتاب ہے اور کس
قدر میرے لیے
ہاں مبارک اب ہے معراج
نظر میرے لیے
جس قدر وہ دور تر نزدیک
تر میرے لیے
کھیل ہے بازیچۂ شام و
سحر میرے لیے
دو گلِ بازی ہیں یہ شمس و
قمر میرے لیے
وقف ہے صیاد کی اک اک
نظر میرے لیے
ہاں مبارک یہ شکست بال و
پر میرے لیے
گرم ہے ہنگامۂ شام و
سحر میرے لیے
رات دن گردش میں ہیں شمس و
قمر میرے لیے
میں ہوں وحشی آہ کس صحرائے آفت خیز کا
ہے گل ویرانہ بھی بیگانہ
تر میرے لیے
اس مقام عشق میں ہوں مرحبا اے بے خودی
ذرہ ذرہ ہے جہاں گرمِ
سفر میرے لیے
جذب ہو کر رہ گیا ہوں میں جمالِ دوست میں
عشق ہے تابندہ تر پائندہ
تر میرے لیے
میں نہیں کہتا کہ میں ہوں تو ہو تیری خلوتیں
ہاں مگر سب سے جدا خاص اک
نظر میرے لیے
اللٰہ اللٰہ میں بھی کیا نازک دماغ عشق ہوں
نکہتِ گل بھی ہے وجہ دردِ
سر میرے لیے
پھر بھی آنکھیں ڈھونڈتی ہیں اک سراپا ناز کو
میں نے مانا کچھ نہیں حدِ
نظر میرے لیے
رہرو راہِ طلب کو خضر کی حاجت نہیں
ذرہ ذرہ ہے چراغِ
رہگزر میرے لیے
اپنے دل میں جز ترے میں بھی سما سکتا نہیں
میرا ہر ہر سانس ہے زنجیرِ
در میرے لیے
مجھ کو جنت ہی جو دنیا ہے تو یارب بخش دے
بس یہی دامانِ تر چشمان
تر میرے لیے
ترک مے سے اور بھی میں تو شرابی بن گیا
روز آ جاتا ہے مینائے
سحر میرے لیے
جس نے زاہد سے بھی کافر کے اڑا ڈالے ہیں ہوش
اس سے بھی کچھ اور ساقی تیز
تر میرے لیے
وہ مرا ساغر بکف ہونا پشیمانی کے ساتھ
ابرِ رحمت کا وہ اٹھنا جھوم
کر میرے لیے
کل شبِ ماہتاب میں اک بلبل آفت نوا
مرکزِ غم بن رہا تھا رات
بھر میرے لیے
ناگہاں لب ہائے برگِ گل سے یہ آئی ندا
نالے کرتا ہے عبث اے بے
خبر میرے لیے
میں بھی ہوں اپنی جگہ خونیں جگر خونیں کفن
تو نہ اپنی جان کھو اے مشت
پر میرے لیے
بس یہ سننا تھا کہ پائے گل پہ گر کر مر مٹا
بن گیا اک نقش عبرت عمر
بھر میرے لیے
زندگی اک تہمت بے جا ہے میری ذات پر
موت اک الزام ناجائز جگرؔ میرے لیے
میں تو ہر حالت میں خوش ہوں لیکن اس کا کیا علاج
ڈبڈبا آتی ہیں وہ آنکھیں جگرؔ میرے لیے