دستِ دادار بڑا شعبدہ گر ہے سائیں

عرفان صدیقی


دیکھ لے ، خاک ہے کاسے میں کہ زر ہے سائیں
دستِ دادار بڑا شعبدہ گر ہے سائیں
تو مجھے اس کے خم و پیچ بتاتا کیا ہے
کوئے قاتل تو مری راہ گزر ہے سائیں
یہ جہاں کیا ہے بس اک صفحۂ بے نقش و نگار
اور جو کچھ ہے ترا حسنِ نظر ہے سائیں
شہر و صحرا تو ہیں انسانوں کے رکھے ہوئے نام
گھر وہیں ہے دلِ دیوانہ جدھر ہے سائیں
ہم نے پہلے بھی مآل شبِ غم دیکھا ہے
آنکھ اب کے جو کھلے گی تو سحر ہے سائیں
پاؤں کی فکر نہ کر بار کم و بیش اتار
اصل زنجیر تو سامانِ سفر ہے سائیں
آگے تقدیر پرندے کی جہاں لے جائے
حدِ پرواز فقط حوصلہ بھر ہے سائیں
شاعری کون کرامت ہے مگر کیا کیجے
درد ہے دل میں سو لفظوں میں اثر ہے سائیں
عشق میں کہتے ہیں فرہاد نے کاٹا تھا پہاڑ
ہم نے دن کاٹ دیے یہ بھی ہنر ہے سائیں
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست