کوئی کرتا ہوا فر یاد آیا

باقی صدیقی


دشت یاد آیا کہ گھر یاد آیا
کوئی کرتا ہوا فر یاد آیا
پھر بجھی شمع جلا دی ہم نے
جانے کیا وقتِ سحر یاد آیا
ربطِ باہم کی تمنا معلوم
حادثہ ایک مگر یاد آیا
در و دیوار سے مل کر روئے
کیا ہمیں وقتِ سفر یاد آیا
قدم اٹھتے نہیں منزل کی طرف
کیا سرِ راہگزر یاد آیا
منزلوں ذوقِ سفر سے الجھے
منزلروں آپ کا در یاد آیا
ہنس کے پھر رہنما نے دیکھا
پھر ہمیں رختِ سفر یاد آیا
زندگی گزرے گی کیونکر باقیؔ
عمر بھر کوئی اگر یاد آیا
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مسدس مخبون محذوف مسکن
فہرست