رک بھی جائیں تو سفر ختم کہاں ہوتا ہے

عرفان صدیقی


بے دلاں، کارِ نظر ختم کہاں ہوتا ہے
رک بھی جائیں تو سفر ختم کہاں ہوتا ہے
نیند سے پہلے بہت شور مچاتے ہیں خیال
شب کو ہنگامۂ سر ختم کہاں ہوتا ہے
چاہتا کون ہے مرنے کی اذیت سے نجات
زہر تو ہے تو اثر ختم کہاں ہوتا ہے
اگلے موسم میں پھر آئیں گے نئے برگ و ثمر
اے ہوا بارِ شجر ختم کہاں ہوتا ہے
اپنی ہی آگ سے روشن ہوں میں اک ذرۂ خاک
دیکھئے رقصِ شرر ختم کہاں ہوتا ہے
بولتے بولتے ہو جاتے ہیں خاموش چراغ
سخنِ سایۂ در ختم کہاں ہوتا ہے
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست