کچھ کم سماعتوں کو سنانا بھی ہوتا ہے

عرفان صدیقی


کچھ تو فغاں کا خیر بہانا بھی ہوتا ہے
کچھ کم سماعتوں کو سنانا بھی ہوتا ہے
دیکھو ہمارے چاکِ گریباں پہ خوش نہ ہو
یہ ہے جنوں اور اس کا نشانا بھی ہوتا ہے
آزادگاں کو خانہ خرابی کا کیا ملال
کیا موجِ گل کا کوئی ٹھکانا بھی ہوتا ہے
ہم اس جگہ میں خوش ہیں کہ ایسے خرابوں میں
سانپوں کے ساتھ ساتھ خزانا بھی ہوتا ہے
میں کیوں ڈروں کہ جان سے جاتا ہوں ایک بار
دشمن کو میرے لوٹ کے آنا بھی ہوتا ہے
اب آپ لوگ سود و زیاں سوچتے رہیں
بندہ تو چوتھی سمت روانہ بھی ہوتا ہے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست