جو طشتِ موج اٹھاتا ہوں سر نکلتا ہے

عرفان صدیقی


ندی سے پھول نہ گنجِ گہر نکلتا ہے
جو طشتِ موج اٹھاتا ہوں سر نکلتا ہے
لہو میں غرق ہمارے بدن کو سہل نہ جان
یہ آفتاب ہے اور ڈوب کر نکلتا ہے
جراحتیں مجھے کارِ رفو سکھاتی ہیں
مرا عدو ہی مرا چارہ گر نکلتا ہے
زمین پھر بھی کشادہ ہے بال و پر کے لیے
کہ آسمان تو حدِ نظر نکلتا ہے
ذرا جو بند ہوں آنکھیں تو شب کے زنداں میں
عجیب سلسلۂ بام و در نکلتا ہے
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست