جس نے تیرے ایما پر طے کیا سفر اپنا

باقی صدیقی


لے گیا بچا کر وہ دل کے ساتھ سر اپنا
جس نے تیرے ایما پر طے کیا سفر اپنا
آئنے ماں ہر صورت آئنہ نہیں ہوتی
مسکرا دیے ہم بھی عکس دیکھ کر اپنا
زندگی کے ہنگامے دھڑکنوں میں ڈھلتیہیں
خواب میں بھی سنتے ہیں شور رات بھر اپنا
دل کے ہر دریچے میں جھانکتے ہیں کچھ چہرے
خود کو راہ میں پایا رخ کیا جدھر اپنا
کون کس سے الجھا ہے ، ایک شور برپا ہے
جا رہاہے دیکھو تو قافلہ کدھر اپنا
خیر ہو ترے غم کی شام ہونے والی ہے
اور کر لیا ہم نے ایک دن بسر اپنا
رنگ زندگی دییکھا کچھ یہاں وہاں باقیؔ
غم غلط کیا ہم نے کچھ ادھر ادھر اپنا
فاعِلن مفاعیلن فاعِلن مفاعیلن
ہزج مثمن اشتر
فہرست