راہگزر ہی میں رہے راہگزر کے ساتھی

باقی صدیقی


چل سکے دل کے نہ ہمراہ نظر کے ساتھی
راہگزر ہی میں رہے راہگزر کے ساتھی
ہر کنارے کی طرف صورت دریا دیکھو
راستہ روک بھی لیتے ہیں سفر کے ساتھی
قافلے شور مچاتے ہوئے گزرے لیکن
اپنی دیوار سے آئے نہ اتر کے ساتھی
خشک شاخوں پہ سرِ شام جو آ بیٹھتے ہیں
وہی دو چار پرندے ہیں شجر کے ساتھی
چاک دامن کا گلہ کرتے رہے ہم باقیؔ
اور محفل سے اٹھے جھولیاں بھر کے ساتھی
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست