یہ ایک سینہ کہاں تک سپر کروں گا میں

عرفان صدیقی


تمام معرکے اب مختصر کروں گا میں
یہ ایک سینہ کہاں تک سپر کروں گا میں
وہی عصا کا خدا ہے ‘ وہی سمندر کا
وہ مرحلہ کوئی دے گا تو سر کروں گا میں
کوئی دعا ہوں‘ کسی اور سے معاملہ ہے
صدا نہیں کہ سماعت میں گھر کروں گا میں
پرانی خوشبوؤ! اب میرے ساتھ ساتھ نہ آؤ
یہاں سے اگلی رتوں کا سفر کروں گا میں
وہ اک کھنڈر ہے ‘ مگر راستے میں پڑتا ہے
سو ایک رات وہاں بھی بسر کروں گا میں
اجاڑ دشت میں کچھ زندگی تو پیدا ہو
یہ ایک چیخ یہاں بھی شجر کروں گا میں
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست