وہ مہرباں پسِ گردِ سفر چلا بھی گیا

عرفان صدیقی


مجھے بچا بھی لیا، چھوڑ کر چلا بھی گیا
وہ مہرباں پسِ گردِ سفر چلا بھی گیا
وگرنہ تنگ نہ تھی عشقِ پر خدا کی زمین
کہا تھا اس نے تو میں اپنے گھر چلا بھی گیا
کوئی یقیں نہ کرے میں اگر کسی کو بتاؤں
وہ انگلیاں تھیں کہ زخمِ جگر چلا بھی گیا
مرے بدن سے پھر آئی گئے دنوں کی مہک
اگرچہ موسمِ برگ و ثمر چلا بھی گیا
ہوا کی طرح نہ دیکھی مری خزاں کی بہار
کھلا کے پھول مرا خوش نظر چلا بھی گیا
عجیب روشنیاں تھیں وصال کے اس پار
میں اس کے ساتھ رہا اور ادھر چلا بھی گیا
کل اس نے سیر کرائی نئے جہانوں کی
تو رنجِ نارسیِ بال و پر چلا بھی گیا
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست