میری پگڑی گر گئی لیکن مرا سر بچ گیا

عرفان صدیقی


اک ذرا خم ہو کے میں پیش ستم گر بچ گیا
میری پگڑی گر گئی لیکن مرا سر بچ گیا
زندہ رہنے کی خوشی کس لاش سے مل کر مناؤں
کس کھنڈر کو جا کے مژدہ دوں مرا گھر بچ گیا
پیاس کے صحرا میں بچوں پر جو کچھ بیتی نہ پوچھ
ہاں خدا کا شکر‘ بازوئے برادر بچ گیا
سچ تو یہ ہے دوستو‘ بے کار ہیں سارے حصار!
لوگ گھر میں لٹ گئے ‘ میں گھر کے باہر بچ گیا
چاہیے کوئی نہ کوئی راستہ سیلاب کو
سرپھری دیوار آخر بہ گئی‘ در بچ گیا
زندگی کا مول وہ بھی اس سے کم کیا مانگتے
میں بھی اپنے قاتلوں کو جان دے کر بچ گیا
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست