تھام جبریل امیں اپنا جگر لیتا ہے

انشاء اللہ خان انشا


اک پھریری جو ترا خاک بسر لیتا ہے
تھام جبریل امیں اپنا جگر لیتا ہے
ساتھ اپنے کوئی اسباب سفر لیتا ہے
تو فقیر اس گھڑی سر زانو پہ دھر لیتا ہے
چھیڑ چھاڑ اپنے اڑا کون سکے اے قبلہ
برق سے دام کوئی مشت شرر لیتا ہے
دیکھیے کیا ہو چلے جاؤ میاں اپنی راہ
کون یاں ہم سے غریبوں کی خبر لیتا ہے
باغباں کا یہ نہیں جرم نصیب اپنے کہ وہ
چھانٹ کر سب میں پکڑ میری کمر لیتا ہے
کوئی سرکار جنوں کی نہیں لازم نائب
کام جتنے ہیں وہ سب آپ ہی کر لیتا ہے
کہہ لیے کیوں نہ ہو سبزے کہ سخن میرا سیکھ
وایۂِ ابرِ بہاری کے ہنر لیتا ہے
سینہ نخل سے آتی ہے ابل دودھ کی دھار
کھینچ اس کا جو کوئی طفل تبر لیتا ہے
ہووے پرلوک اودے بھان تو لالہ گھنشام
ان کے پھکنے کے لیے مول اگر لیتا ہے
نونہالان چمن کو ہو بھلا کیوں کر چین
توڑ گل ان کے کوئی کوئی ثمر لیتا ہے
ان کی قازیں بھی ترانہ یہ سنا جاتی ہیں
کہ تبر لیتا تبر لیتا تبر لیتا ہے
اس زمیں میں وہ ہے اک باغ لگا اے انشاؔ
جو کہ طوبیٰ کی بھی چوٹی کو کتر لیتا ہے
فہرست