جس سمت جا رہے تھے ادھر کچھ نہیں بچا

عرفان صدیقی


اب اور کوئی منزلِ دشوار سوچئے
جس سمت جا رہے تھے ادھر کچھ نہیں بچا
سب کاروبار عرضِ تمنا فضول ہے
دل میں لہو زباں میں اثر کچھ نہیں بچا
یہ کون چیختا ہے اگر مر چکا ہوں میں
یہ کیا تڑپ رہا ہے اگر کچھ نہیں بچا
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست