اتنی ہی بڑھی حسرت جتنا ہی ادھر دیکھا

جگر مراد آبادی


اس عشق کے ہاتھوں سے ہرگز نہ مفر دیکھا
اتنی ہی بڑھی حسرت جتنا ہی ادھر دیکھا
تھا کھیل سا پہلے عشق لیکن جو کھلیں آنکھیں
ڈوبا ہوا رگ رگ میں وہ تیرِ نظر دیکھا
سب ہو گئی اٹھ اٹھ کر اک باز نثار شمع
پروانوں نے کیا جانے کیا وقتِ سحر دیکھا
وہ اشک بھری آنکھیں اور درد بھرے نالے
اللہ نہ دکھلائے جو وقتِ سحر دیکھا
قرباں تری آنکھوں کے صدقے تری نظروں کے
تھا حاصل صد ناوک جو زخمِ جگر دیکھا
جاتے رہے دم بھر میں سارے ہی گلے شکوے
اس جان تغافل نے جب ایک نظر دیکھا
عہد غمِ فرقت میں دل اور جگر کیسے
اک زخم ادھر پایا اک داغ ادھر دیکھا
تھا باعث رسوائی ہر چند جنوں میرا
ان کو بھی نہ چین آیا جب تک نہ ادھر دیکھا
اس چشم غزالیں کو مے خانۂ دل پایا
اس روئے نگاریں کو فردوس نظر دیکھا
یوں دل کو تڑپنے کا کچھ تو ہے سبب آخر
یا درد نے کروٹ لی یا تم نے ادھر دیکھا
کیا جانیے کیا گزری ہنگام جنوں لیکن
کچھ ہوش ہو آیا تو اجڑا ہوا گھر دیکھا
ماتھے پہ پسینا کیوں آنکھوں میں نمی کیسی
کچھ خیر تو ہی تم نے کیا حال جگر دیکھا
کانٹا تھا چشم یاس میں ایک ایک رگِ گل
میرے لیے چمن بھی بیاباں نکل گیا
دستِ جنوں کا ضعف سے اٹھنا محال تھا
کیا جانے کس طرح سے گریباں نکل گیا
دل میں تو آگ ہی وہی اب تک لگی ہوئی
مانا کہ چشمِ شوق کا ارماں نکل گیا
جوش جنوں سے کچھ نہ چلی ضبط عشق کی
سو سو جگہ سے آج گریباں نکل گیا
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
ہزج مثمن اخرب سالم
فہرست