کر چکیں میرے دل میں گھر آنکھیں

داغ دہلوی


کیوں چراتے ہو دیکھ کر آنکھیں
کر چکیں میرے دل میں گھر آنکھیں
چشمِ نرگس کو دیکھ لیں پھر ہم
تم دکھا دو جو اک نظر آنکھیں
ہے دوا ان کی آتشِ رخسار
سینکتے ہیں اس آگ پر آنکھیں
کوئی آسان ہے تیرا دیدار
پہلے بنوائے تو بشر آنکھیں
جلوۂِ یار کی نہ تاب ہوئی
ٹوٹ آئیں ہیں کس قدر آنکھیں
دل کو تو گھونٹ گھونٹ کر رکھا
مانتی ہی نہیں مگر آنکھیں
نہ گئی تاک جھانک کی عادت
لیے پھرتی ہیں در بہ در آنکھیں
ناوک و نیشتر تری پلکیں
سحرِ پرداز و فتنہ گر آنکھیں
یہ نرالا ہے شرم کا انداز
بات کرتے ہو ڈھانک کر آنکھیں
خاک پر کیوں ہو نقشِ پا تیرا
ہم بچھائیں زمین پر آنکھیں
نوحہ گر کون ہے مقدر میں
رونے والوں میں ہیں مگر آنکھیں
یہی رونا ہے گر شبِ غم کا
پھوٹ جائیں گی تا سحر آنکھیں
حالِ دل دیکھنا نہیں آتا
دل کی بنوائیں چارہ گر آنکھیں
داغ آنکھیں نکالتے ہیں وہ
ان کو دیدو نکال کر آنکھیں
فہرست