غنچے کو جیسے موجۂِ بادِ سحر سے فیض

مصطفٰی خان شیفتہ


ہے دل کو یوں ترے دمِ اعجاز اثر سے فیض
غنچے کو جیسے موجۂِ بادِ سحر سے فیض
عشاق سے نگاہ نہ رکھو دریغ تم
پاتے ہیں لوگ خدمت اہلِ نظر سے فیض
ہے عالمِ کبیر میں بھی یوں ہی جس طرح
دل سے جگر کو فیض ہے ، دل کو جگر سے فیض
آزردہ جفائے ’’دے ‘‘ و ’’تیر‘‘ کو نہیں
یک ذرہ آب و آتشِ لعل و گہر سے فیض
اپنی نہاد میں نہیں احساں فرامشی
پایا ہے ہم نے صاعقے کا ابرِ تر سے فیض
زر کسب کر کہ عشرتِ خسرو نصیب ہو
فرہاد کو سنا ہے ، ہوا جو ہنر سے فیض؟
لگتے ہیں اس کے سینہ و بر سے مدام ہم
ہوتا ہے ہم کو روز مہِ سیم بر سے فیض
اربابِ خانقاہ ہیں محتاجِ اغنیا
کافی ہے ہم کو پیرِ مغاں! تیرے در سے فیض
بلبل ہمارے گھر وہ خود آتے ہیں رحم سے
افزوں ہے بے پری میں یہاں بال و پر سے فیض
خرم نہادِ مے کش و زاہد شگفتہ دل
ہے شیفتہ ہر ایک کو وقتِ سحر سے فیض
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست