لعنت ہے اس آہ بے اثر پر

مصحفی غلام ہمدانی


چھریاں چلیں شب دل و جگر پر
لعنت ہے اس آہ بے اثر پر
بالوں نے ترے بلا دکھا دی
جب کھل کے وہ آ رہی کمر پر
نامے کو مرے چھپا رکھے گا
تھا یہ تو گماں نہ نامہ بر پر
پھرتے ہیں جھروکوں کے تلے شاہ
اس کو میں امید یک نظر پر
کیا جاگا ہے یہ بھی ہجر کی شب
زردی سی ہے کیوں رخ قمر پر
پھر غیرتِ عشق نے بٹھائے
درباں شدید اس کے در پر
رہتی ہیں بہ وقت گریہ اکثر
دو انگلیاں اپنی چشمِ تر پر
ہے عشق سخن کا مصحفیؔ کو
مائل نہیں اتنا سیم و زر پر
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست