لایا قاصد بھی مجھے واں سے تو پیغام الٹا

مصحفی غلام ہمدانی


اس کے خط میں جو لکھا غیر کا میں نام الٹا
لایا قاصد بھی مجھے واں سے تو پیغام الٹا
ہم مسلمانوں سے یاں تک تو یہ ہندو برعکس
کہ کبھی خط بھی جو کرتے ہیں تو ارقام الٹا
نہ وہ ساقی نہ وہ مے نوش ہیں مے خانے میں
اب تو رہتا ہے سر خم پہ دھرا جام الٹا
اک تو سیپارۂ دل تم نے کیا ہے برہم
تس پہ پھر مجھ کو ہی تم دیتے ہو الزام الٹا
واژگونی جو طبیعت میں فلک کی ہے ہنوز
نظر آتا ہے زمانہ سحر و شام الٹا
شبِ ہجراں کی سیاہی نہ ہوئی روز سفید
یہ ورق تو نے نہ اے گردشِ ایام الٹا
رسن دام کو صیاد نے کھینچا تو وہیں
آن کر سر پہ اسیروں کے گرا دام الٹا
مصحفیؔ تو ابھی تھا عزمِ سفر پر تیار
گھر پھرا جائے ہے کیوں اس کا سرانجام الٹا
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست