بام افلاک سے اتر ساقی

باقی صدیقی


پھول بکرھے ہیں خاک پر ساقی
بام افلاک سے اتر ساقی
میکدہ اور مہیب سناٹا
بے رخی اور اس قدر ساقی
تشنہ کامی سی تشنہ کامی ہے
دل میں پڑنے لگے بھنور ساقی
بجھ رہا ہے چراغ ہے خانہ
رگ ساغر میں خون بھر ساقی
بار ہیں اب خزاں کے ہنگامے
فصلِ گل کی کوئی خبر ساقی
رند بکھرے ہیں ساغروں کی طرح
رنگِ محفل پہ اک نظر ساقی
بے ارادہ چھلک چھلک جانا
جامِ مے ہے کہ چشمِ تر ساقی
اک کرن اس طرف سے گزری ہے
ہو رہی ہے کہیں سحر ساقی
توڑ کر سب حدود میخانہ
بوئے مے کی طرح بکھر ساقی
جانے کل رنگ زندگی کیا ہو
وقت کی کروٹوں سے ڈر ساقی
رات کے آخری تبسم پر
مئے باقیؔ نثار کر ساقی
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست