ہمسایہ سو رہا ہے بے فکر اپنے گھر میں

قمر جلالوی


دل کو خبر نہیں ہے اور درد ہے جگر میں
ہمسایہ سو رہا ہے بے فکر اپنے گھر میں
اتنا سبک نہ کیجیے احباب کی نظر میں
اٹھتی ہے میری میت بیٹھے ہیں آپ گھر میں
رسوائیوں کا ڈر بھی میری قضا کا غم ہے
میت سے کچھ الگ ہیں آنسو ہیں چشمِ تر میں
حالاں کہ اور بھی تھے نغمہ طرازِ گلشن
اک میں کھٹک رہا تھا صیاد کی نظر میں
دیکھا جو صبحِ فرقت اترا سا منہ قمر کا
بولے کہ ہو گیا ہے کیا حال رات بھر میں
مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن
مضارع مثمن اخرب
فہرست