اک تماشا بن کے آ بیٹھا ہوں کوئے یار میں

قمر جلالوی


چھوڑ کر گھر بار اپنا حسرتِ دیدار میں
اک تماشا بن کے آ بیٹھا ہوں کوئے یار میں
دم نکل جائے گا حسرت نہ دیکھ اے نا خدا
اب مری قسمت پہ کشتی چھوڑ دے منجدھار میں
دیکھ بھی آ بات کہنے کے لیے ہو جائے گی
صرف گنتی کی ہیں سانسیں اب ترے بیمار میں
فصلِ گل میں کس قدر منحوس ہے رونا مرا
میں نے جب نالے کیے بجلی گری گلزار میں
جل گیا میرا نشیمن یہ تو میں نے سن لیا
باغباں تو خیریت سے ہے صبا گلزار میں
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست