رات کو پھر پائے گل رویاں پہ سر رکھ دیجیے

سراج الدین ظفر


دن کو بحر و بر کا سینہ چیر کر رکھ دیجیے
رات کو پھر پائے گل رویاں پہ سر رکھ دیجیے
دیکھیے پھر کیا دمکتے ہیں گل اندامان شہر
اک ذرا ان میں محبت کا شرر رکھ دیجیے
آہوان شب گریزاں ہوں تو ان کی راہ میں
دام دل رکھ دیجیے دام نظر رکھ دیجیے
بت پرستی کیجیے اس شدتِ احساس سے
سنگ میں بھی جزو احساس و خبر رکھ دیجیے
زہد اگر جنگ آزما ہو کھینچیے شمشیر شوق
حسن اگر مدِ مقابل ہو سپر رکھ دیجیے
راحت جان ظفرؔ ہیں شاہدان بے ہنر
روندنے کو ان کے قدموں میں ہنر رکھ دیجیے
فہرست