شہر میں اور گل اندام ابھی باقی ہیں

سراج الدین ظفر


موسمِ گل ترے انعام ابھی باقی ہیں
شہر میں اور گل اندام ابھی باقی ہیں
اور کھل جا کہ معارف کی گزر گاہوں میں
پیچ اے زلفِ سیہ فام ابھی باقی ہیں
اک سبو اور کہ لوحِ دل مے نوشاں پر
کچھ نقوش سحر و شام ابھی باقی ہیں
ٹھہر اے بادِ سحر اس گل نورستہ کے نام
اور بھی شوق کے پیغام ابھی باقی ہیں
اٹھو اے شب کے غزالو کہ سحر سے پہلے
چند لمحات خوش انجام ابھی باقی ہیں
انتظار اے دل و دیدہ کہ ہزاروں اسرار
سائے کی طرح تہہ جام ابھی باقی ہیں
کھول کر کیجیے تشریح سر مصرع زلف
اس نوشتے میں کچھ ابہام ابھی باقی ہیں
اے سہی قد تری نسبت سے سب اونچی قدریں
باوجود روش عام ابھی باقی ہیں
ہم میں کل کے نہ سہی حافظؔ و خیامؔ ظفرؔ
آج کے حافظؔ و خیامؔ ابھی باقی ہیں
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست