اب تو پہچان کہ ہم شام کو گھر آ گئے ہیں

عرفان صدیقی


خانۂ درد ترے خاک بہ سر آ گئے ہیں
اب تو پہچان کہ ہم شام کو گھر آ گئے ہیں
جان و دل کب کے گئے ناقہ سواروں کی طرف
یہ بدن گرد اڑانے کو کدھر آ گئے ہیں
رات دن سوچتے رہتے ہیں یہ زندانیِ ہجر
اس نے چاہا ہے تو دیوار میں در آ گئے ہیں
اس کے ہی ہاتھ میں ہے شاخِ تعلق کی بہار
چھو لیا ہے تو نئے برگ و ثمر آ گئے ہیں
ہم نے دیکھا ہی تھا دنیا کو ابھی اس کے بغیر
لیجیے بیچ میں پھر دیدۂ تر آ گئے ہیں
اتنا آسان نہیں فیصلۂ ترکِ سفر
پھر مری راہ میں دو چار شجر آ گئے ہیں
نیند کے شہرِ طلسمات میں دیکھیں کیا ہے
جاگتے میں تو بہت خواب نظر آ گئے ہیں
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست