وہ سیر رنگ و بو کی تمنا کدھر گئی

باقی صدیقی


اٹھ کر مری نظر ترے رخ پہ ٹھر گئی
وہ سیر رنگ و بو کی تمنا کدھر گئی
کچھ اتنا بے ثبات تھا ہر منظر حیات
اک زخم کھا کے آئی جدھر بھی نظر گئی
تیرے بغیر رنگ نہ آیا بہار میں
اک اک کلی کے پاس نسیمِ سحر گئی
شبنم ہو، کہکشاں ہو، ستارے ہوں، پھول ہوں
جو شے تمہارے سامنے آئی نکھر گئی
ہر چند میرے غم کا مداوا نہ ہو سکا
پھر بھی تری نگاہ بڑا کام کر گئی
وارفتگان شوق کا باقیؔ نہ حال پوچھ
دل سے اکٹھی وہ موج کہ سر سے گزر گئی
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست