سانپ کو مار کے گنجینۂِ زر لیتا ہے

حیدر علی آتش


کام ہمت سے جواں مرد اگر لیتا ہے
سانپ کو مار کے گنجینۂِ زر لیتا ہے
نا گوارا کو جو کرتا ہے گوارا انساں
زہر پی کر مزۂِ شیر و شکر لیتا ہے
ہالے میں ماہ کا ہوتا ہے چکوروں کو یقیں
کبھی انگڑائی جو وہ رشکِ قمر لیتا ہے
وہ زبوں بخت شجر ہوں میں کہ دہقاں میرا
پیچھے بوتا ہے مجھے پہلے تبر لیتا ہے
منزل فقر و فنا جائے ادب ہے غافل
بادشہ تخت سے یاں اپنے اتر لیتا ہے
گنج پنہاں ہیں تصرف میں بنی آدم کے
کان سے لعل یہ دریا سے گہر لیتا ہے
نظر آ جاتا ہے اے گل جسے رخسار ترا
پھولوں سے دامن نظارہ وہ بھر لیتا ہے
عقل کر دیتی ہے انساں کی جہالت زائل
موت سے جان چھپانے کو سپر لیتا ہے
یاد رکھتا ہے عدم میں کوئی ساغر کش اسے
ہچکیاں شیشۂِ مے شام و سحر لیتا ہے
غیرت نالہ و فریاد نہ کھو اے آتشؔ
آشنا کوئی نہیں کون خبر لیتا ہے
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست