ہم بادہ کشوں کے حصے کی، اب جام میں کمتر جاتی ہے

فیض احمد فیض


کچھ محتسبوں کی خلوت میں، کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے
ہم بادہ کشوں کے حصے کی، اب جام میں کمتر جاتی ہے
یوں عرض و طلب سے کب اے دل، پتھر دل پانی ہوتے ہیں
تم لاکھ رضا کی خو ڈالو، کب خوئے ستمگر جاتی ہے
بیداد گروں کی بستی ہے یاں داد کہاں خیرات کہاں
سر پھوڑتی پھرتی ہے ناداں فریاد جو در در جاتی ہے
ہاں، جاں کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجے
ہر رہ جو ادھر کو جاتی ہے ، مقتل سے گزر کر جاتی ہے
اب کوچہء دلبر کا رہرو، رہزن بھی بنے تو بات بنے
پہرے سے عدو ٹلتے ہی نہیں اور رات برابر جاتی ہے
ہم اہلِ قفس تنہا بھی نہیں، ہر روز نسیم صبحِ وطن
یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن
بحرِ زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف
فہرست