اپنی ہوا میں اڑتا ہے بے پر کا آدمی

باقی صدیقی


جب سایہ آدمی کا پڑا سر کا آدمی
اپنی ہوا میں اڑتا ہے بے پر کا آدمی
گرتا ہے اپنے آپ پہ دیوار کی طرح
اندر سے جب چٹختا ہے پتھر کا آدمی
مٹی کی بات کرتا ہے کس اہتمام سے
سونے کی سل پہ بیٹھ کے مرمر کا آدمی
سائے کا ایک طور نہ چلمن کا ایک رنگ
دیوار کا رہا نہ کسی در کا آدمی
ہر صبح اٹھ کے زیست کی دیوار چاٹنا
باہر سے کتنا دور ہے اندر کا آدمی
باقیؔ یہ پھیلتے ہوئے رنگوں کے دائرے
باہر ہی باہر اڑتا ہے باہر کا آدمی
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست