کچھ نہیں ہے ‘ مگر اس گھر کا مقدر یادیں

شکیب جلالی


دستکیں دیتی ہیں شب کو درِ دل پر یادیں
کچھ نہیں ہے ‘ مگر اس گھر کا مقدر یادیں
ڈھونڈتی ہیں تری مہکی ہوئی زلفوں کی بہار
چاندنی رات کے زینے سے اتر کر یادیں
عشرتِ رفتہ کو آواز دیا کرتی ہیں
ہر نئے لمحے کی دہلیز پہ جا کر یادیں
رنگ بھرتے ہیں خلاؤں میں ہیولے کیا کیا
پیش کرتی ہیں عجب خواب کا منظر یادیں
نہ کسی زلف کا عنبر‘ نہ گلوں کی خوشبو
کر گئی ہیں مری سانسوں کو معطر یادیں
کم نہیں رات کے صحرا سے ‘ مرے دل کی فضا
اور آکاش کے تاروں سے فزوں تر یادیں
مشعلِ غم نہ بجھاؤ‘ کہ شکیبؔ‘ اس کے بغیر
راستہ گھر کا بھلا دیتی ہیں اکثر یادیں
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست