ہائے لایا نہ کوئی قاصد
دلبر کاغذ
ہو گیا غم سے ہمارا تن
لاغر کاغذ
نامۂِ یار کے لکھنے کو مجھے ارزاں ہے
تول دے گر کوئی سونے کے
برابر کاغذ
یوں لفافے میں ہمارا ہے کلام شیریں
جس طرح باندھتے ہیں قند کے
اوپر کاغذ
ناتوانی سے نہیں ہے مجھے ممکن حرکت
میں ہوں حرفوں کی طرح میرا ہے
بستر کاغذ
حال لکھا ہے جو میں نے بدن لاغر کا
لے اڑا تنکے کی مانند
کبوتر کاغذ
میں نے لکھا ہے جو اپنا یہ مصیبت نامہ
مہر کرنے کو کروں اشک سے اب
تر کاغذ
میرے نامے کو اگر دستِ حنائی میں وہ لے
ورق گل سے بھی ہو رنگ میں
بہتر کاغذ
حال سوزِ غمِ فرقت کروں تحریر تو ہو
کبک کی چونچ قلم بال
سمندر کاغذ
اس قدر مثل قلم میں نے جبیں سائی کی
بن گیا گھس کے در یار کا
پتھر کاغذ
یار نے خط میں جو لکھا ہے کہ نہ آنا ہرگز
ہو گیا میرے لیے سد
سکندر کاغذ
ساتھ نامے کے گئی جان بھی سوئے جاناں
ہو گیا طائرِ جاں کے لیے شہ
پر کاغذ
نہیں تحفہ خط جاناں کے برابر کوئی
ہے مجھے قند و ذقن سے کہیں
بہتر کاغذ
جائے جراح کہ اب نامہ بر آ پہنچا ہے
بدلے پھاہے کے رکھوں داغِ جگر
پر کاغذ
کیا میں افلاس میں خط یار کو لکھوں ناسخؔ
نہ قلم ہے نہ سیاہی نہ
میسر کاغذ