کرتا ہے سرفراز خدا سر کو دیکھ کر

عرفان صدیقی


روشن ہوا یہ شام کے منظر کو دیکھ کر
کرتا ہے سرفراز خدا سر کو دیکھ کر
نہر گلو سے پیاسوں نے پہرے اٹھا لیے
صحرا میں تشنہ کامی خنجر کو دیکھ کر
جاں دادگان صبر کو فردوس کے سوا
کیا دیکھنا تھا سبطِ پیمبر کو دیکھ کر
سر کی ہوائے دشت نے گلبانگ لاالٰہ
اوج سناں پہ مصحفِ اطہر کو دیکھ کر
آخر کھلا کہ بازوئے ، نصرت قلم ہوئے
دوش ہوا پہ رایت لشکر کو دیکھ کر
ہے حرف حرف نقشِ وفا بولتا ہوا
آئینے چپ ہیں بیت ثناگر کو دیکھ کر
دل میں مرے یہ جوش ولا ہے خدا کی دین
حیرت نہ کر صدف میں سمندر کو دیکھ کر
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست