وہی ہوا کہ مرا تیر اچٹ گیا آخر

عرفان صدیقی


بہت حسیں تھے ہرن دھیان بٹ گیا آخر
وہی ہوا کہ مرا تیر اچٹ گیا آخر
ملی نہ جب کوئی راہِ مفر تو کیا کرتا
میں ایک، سب کے مقابل میں ڈٹ گیا آخر
بس اک امید پہ ہم نے گزار دی اک عمر
بس ایک بوند سے کہسار کٹ گیا آخر
بچا رہا تھا میں شہ زور دشمنوں سے اسے
مگر وہ شخص مجھی سے لپٹ گیا آخر
وہ اڑتے اڑتے کہیں دور افق میں ڈوب گیا
تو آسمان پروں میں سمٹ گیا آخر
کھلا کہ وہ بھی کچھ ایسا وفا پرست نہ تھا
چلو، یہ بوجھ بھی سینے سے ہٹ گیا آخر
ہمارے داغ چھپاتیں روایتیں کب تک
لباس بھی تو پرانا تھا، پھٹ گیا آخر
بڑھا کے ربطِ وفا اجنبی پرندوں سے
وہ ہنس اپنے وطن کو پلٹ گیا آخر
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست