بے تیغ و تیر، شحنہ لشکر بھی ہو گئے

عرفان صدیقی


ہم دل فگار آج دلاور بھی ہو گئے
بے تیغ و تیر، شحنہ لشکر بھی ہو گئے
پہلے بھی خودسری تو بہت تھی خمیر میں
اب کج کلاہیوں پہ مقرر بھی ہو گئے
آزادگی تو جا نہیں سکتی مزاج کی
میرِ سپاہ لے ترے نوکر بھی ہو گئے
یہ سب ولائے فاتحِ خیبر کا فیض ہے
ہم سر جھکا کے صاحب افسر بھی ہو گئے
ہم نے کہا نہ تھا کہ ہیں مشکل کشا علی
وہ معرکے جو بس کے نہ تھے سر بھی ہو گئے
اب کیا شکایت ستم دہر کیجیے
جتنے گلے تھے داخل دفتر بھی ہو گئے
نافذ ہوا وہی شہہ مرداں کا فیصلہ
دشمن کے دستخط سرِ محضر بھی ہو گئے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست