عرفانؔ تم یہ درد کی دولت کہاں سے لائے

عرفان صدیقی


دستِ تہی میں گوہرِ نصرت کہاں سے لائے
عرفانؔ تم یہ درد کی دولت کہاں سے لائے
سب دین ہے خدا کی سو ہر دودمانِ شوق
چادر کہاں سے لائے ولایت کہاں سے لائے
پانی نہ پائیں ساقی کوثر کے اہلِ بیت
موج فرات اشکِ ندامت کہاں سے لائے
لو ہاتھ اہلِ صبر و رضا نے کٹا دیے
اب ظلم سوچتا ہے کہ بیعت کہاں سے لائے
میں آل خانہ زاد علیؑ، ان کا ریزہ خوار
قسمت نہ ہو تو کوئی یہ نسبت کہاں سے لائے
ہاں اہلِ زر کے پاس خزانے تو ہیںؓ مگر
مولاؑ کا یہ فقیر ضرورت کہاں سے لائے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست