خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں

مرزا غالب


دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
کیوں گردشِ مدام سے گبھرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے ؟
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہوں میں
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں
کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے ؟
لعل و زمرد و زر و گوھر نہیں ہوں میں
رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ؟
رتبے میں مہر و ماہ سے کمتر نہیں ہوں میں؟
کرتے ہو مجھ کو منعِ قدم بوس کس لیے ؟
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں؟
غالب وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست