لوگ اٹھائے ہوئے پتھر آئے

باقی صدیقی


ہم کہیں آئنہ لے کر آئے
لوگ اٹھائے ہوئے پتھر آئے
دل کے ملبے میں با جاتا ہوں
زلزلے کیا مرے اندر آئے
جلوہ، جلوے کے مقابل ہی رہا
تم نہ آئنے سے باہر آئے
دل سلاسل کی طرح بجنے لگا
جب ترے گھر کے باربر آئے
جن کے سائے میں صبا چلتی تھی
پھر نہ وہ لوگ پلٹ کر آئے
شعر کا روپ بدلکر باقیؔ
دل کے کچھ زخم زباں پر آئے
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مسدس مخبون محذوف مسکن
فہرست