خانۂ شیر دہاں ہے یہ جہاں بھی شاید

عرفان صدیقی


اب نہ مل پائیں مرے ہم نفساں بھی شاید
خانۂ شیر دہاں ہے یہ جہاں بھی شاید
تن پہ یہ خاکِ گزر دیکھ کے یاد آتا ہے
ساتھ میں تھی کوئی موجِ گزراں بھی شاید
کیا عجب ہے میں اس آشوب میں زندہ رہ جاؤں
وہم ہو تیرا یقیں میرا گماں بھی شاید
ان کمندوں سے زیادہ ہو مری وحشتِ جاں
اور میں صید نہ ہو پاؤں یہاں بھی شاید
کوئی آواز نہیں ہے پسِ دیوار سخن
عشق نے چھوڑ دیا ہے یہ مکاں بھی شاید
رتجگے کرتے ہوئے دیکھ رہی ہو گی مجھے
اسی جنگل میں صف رہزناں بھی شاید
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست