حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گلاب کے پھول

مجید امجد


روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گلاب کے پھول
حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گلاب کے پھول
افق افق پہ زمانوں کی دھند سے ابھرے
طیور، نغمے ، ندی، تتلیاں، گلاب کے پھول
کس انہماک سے بیٹھی کشید کرتی ہے
عروسِ گل بہ قبائے جہاں، گلاب کے پھول
جہان گریہ شبنم سے ، کس غرور کے سات
گزر رہے ہیں، تبسم کناں، گلاب کے پھول
یہ میرا دامنِ صد چاک، یہ ردائے بہار
یہاں شراب کے چھینٹے ، وہاں گلاب کے پھول
کسی کا پھول سا چہرہ اور اس پہ رنگ افروز
گندھے ہوئے بہ خم گیسواں، گلاب کے پھول
خیالِ یار، ترے سلسلے نشوں کی رتیں
جمالِ یار، تری جھلکیاں گلاب کے پھول
مری نگاہ میں دورِ زماں کی ہر کروٹ
لہو کی لہر، دلوں کا دھواں، گلاب کے پھول
سلگتے جاتے ہیں، چپ چاپ، ہنستے جاتے ہیں
مثال چہرہ پیغمبراں، گلاب کے پھول
یہ کیا طلسم ہے ، یہ کس کی یاسمیں بانہیں
چھڑک گئی ہیں جہاں در جہاں گلاب کے پھول
کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاؤداں گلاب کے پھول
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
مجتث مثمن مخبون محذوف
فہرست