مقبرۂ جہانگیر

مجید امجد


زنگ آلود کمربند، صدف دوز عبا
یہ محافظ، تہہِ محراب عصا تھامے ہوئے
کھانستی صدیوں کا تھوکا ہوا اک قصہ ہیں
اسی گرتی ہوئی دیوار کا اک حصہ ہیں!
کھردرے ، میلے ، پھٹے کپڑوں میں بوڑھے مالی
یہ چمن بند، جو گزرے ہوئے سلطانوں کی
ہڈیاں سینچ کے پھلواڑیاں مہکاتے ہیں
گھاس کٹتی ہے کہ دن ان کے کٹے جاتے ہیں
اور انہیں دیکھو — یہ جاروب کشان بے عقل
صبح ہوتے ہی جو چن چن کے اٹھا پھینکتے ہیں
گٹھلیاں — عشرتِ دزدیدہ کی تلچھٹ سے بھری
کہنہ زینوں میں پڑی، تیرہ دریچوں میں پڑی!
لاکھ ادوار کی لاشوں پہ بچھا کر قالین
چند لوگ اپنی ترنگوں میں مگن بیٹھے ہیں
عکس پڑتا ہے جو نظروں پہ حسیں زلفوں کا
ڈوب جاتا ہے پیالوں میں دھواں سلفوں کا
سنگِ احمر کی سلوں پر یہ سطورِ پرنور
جن کی ہر جدولِ گل پیچ کے الجھاؤ میں
کتنے صناعوں کی صد عمرِ عزیز آویزاں
اس جگہ آج سحرخیز مریض آویزاں
موجِ صد نقش میں لپٹے ہوئے میناروں کے
دودھیا برج، درختوں کے گھنے جھنڈ میں گم
جن کے چھجوں سے نظر آتے ہیں مدفون غبار
رینگتی روحوں سے آباد گناہوں کے دیار!
گنبدِ دل میں لیے رقصِ مہ و سال کی گونج
یہ جھروکا کہ جو راوی کی طرف کھلتا ہے
اپنی تنہائیِ ویراں سے اماں مانگتا ہے
ہر گزرتی ہوئی گاڑی سے دھواں مانگتا ہے !
تین سو سالوں سے مبہوت کھڑے ہیں جو یہ سرو
ان کی شاخیں ہیں کہ آفاق کے شیرازے ہیں
صفِ ایام کی بکھری ہوئی ترتیبیں ہیں
ان کے سائے ہیں کہ ڈھلتی ہوئی تہذیبیں ہیں
مرمریں قبر کے باہر چمن و قصر و اطاق
کوئلیں، امریاں، جھونکے ، روشیں، فوارے
اور — کچھ لوگ کہ جو محرمِ آداب نہیں!
مرمریں قبر کے اندر، تہہِ ظلمات کہیں
کرمک و مور کے جبڑوں میں سلاطیں کے بدن
کوئی دیکھے ، کوئی سمجھے تو اس ایواں میں جہاں
نور ہے ، حسن ہے ، ترئین ہے ، زیبائش ہے
ہے تو بس ایک دکھی روح کی گنجائش ہے
تم نے دیکھا کہ نہیں آج بھی ان محلوں میں
قہقہے جشن مناتے ہوئے نادانوں کے
جب کسی ٹوٹتی محراب سے ٹکراتے ہیں
مرقدِ شاہ کے مینار لرز جاتے ہیں!
 
فہرست