ریوڑ

مجید امجد


شام کی راکھ میں لتھڑی ہوئی ڈھلوانوں پر
ایک ریوڑ کے تھکے قدموں کا مدھم آہنگ
جس کی ہر لہر دھندلکوں میں لڑھک جاتی ہے
مست چرواہا، چراگاہ کی اک چوٹی سے
جب اترتا ہے تو زیتون کی لانبی سونٹی
کسی جلتی ہوئی بدلی میں اٹک جاتی ہے
بکریاں، دشت کی مہکار میں گوندھا ہوا دودھ
چھاگلوں میں لیے جب رقص کناں آتی ہیں
کوئی چوڑی خمِ دوراں پہ چھنک جاتی ہے
جست بھرتی ہے کبھی اور کبھی چلتے چلتے
ناچتی ڈار ممکتے ہوئے بزغالوں کی
ہر جھکی شاخ کی چوکھٹ پہ ٹھٹک جاتی ہے
سان پر لاکھ چھری، سیخ پہ صد پارۂ گوشت
پھر بھی مدہوش غزالوں کی یہ ٹولی ہے کہ جو
بار بار اپنے خطِ رہ سے بھٹک جاتی ہے
شام کی راکھ میں لتھڑی ہوئی ڈھلوانوں پر
کھیلتی ہے غمِ ہستی کی وہ شاداں سی امنگ
جس کی رو وقت کی پہنائیوں تک جاتی ہے
 
فہرست