انداز جہانِ گزراں دیکھ رہے ہیں

باقی صدیقی


اخلاص کو مجبورِ فغاں دیکھ رہے ہیں
انداز جہانِ گزراں دیکھ رہے ہیں
ہم زیست کی راہوں میں دیے غم کے جلا کر
گزرے ہوئے لمحوں کے نشاں دیکھ رہے ہیں
کیا جرات بے باک ہے یہ دل، یہ محبت
قطرے میں سمندر کو نہاں دیکھ رہے ہیں
کیا دور سے اک ساغر گل رنگ دکھا کر
وہ کش مکش بادہ کشاں دیکھ رہے ہیں
حالات نے اس طرح جکڑ رکھا ہے باقیؔ
جو کچھ بھی دکھاتا ہے جہاں دیکھ رہے ہیں
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست