بے وطن جنگل میں بے جرم و خطا مارا گیا

عرفان صدیقی


حشر برپا تھا کہ سبط مصطفی مارا گیا
بے وطن جنگل میں بے جرم و خطا مارا گیا
چشمۂ خوں سے بجھاکر لشکرِ اعدا کی پیاس
بادشاہ کشور صبر و رضا مارا گیا
برگِ گل سے کون سا خطرہ کماں داروں کو تھا
پھول کی گردن میں کیوں تیرِ جفا مارا گیا
گونج کر گم ہو گئی صحرا میں اکبر کی اذاں
اڑتے اڑتے طائر صوت و صدا مارا گیا
کیسے کیسے سرفروش اس مہرباں کے ساتھ تھے
ایک ایک آخر سر راہِ وفا مارا گیا
تم نکل کر کس کا استقبال کرنے آئے ہو
شہر والو، دشت میں وہ قافلہ مارا گیا
چھٹ گیا آشفتگاں کے ہاتھ سے دامانِ صبر
سینۂ صد چاک پر دستِ دعا مارا گیا
پردۂ خیمہ تک آنے ہی کو تھی موج فرات
ناگہاں سقائے بیت مرتضیٰ مارا گیا
زندہ ہم سب نوحہ گر بس یہ خبر سننے کو ہیں
لٹ گئے رہزن، گروہ اشقیا مارا گیا
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست