موت انسان کو لازم ہے سدا یاد رہے

شیخ ابراہیم ذوق


چشم قاتل ہمیں کیونکر نہ بھلا یاد رہے
موت انسان کو لازم ہے سدا یاد رہے
میرا خوں ہے ترے کوچے میں بہا یاد رہے
یہ بہا وہ نہیں جس کا نہ بہا یاد رہے
کشتۂِ زلف کے مرقد پہ تو اے لیلٰی وش
بید مجنوں ہی لگا تاکہ پتا یاد رہے
خاکساری ہے عجب وصف کہ جوں جوں ہو سوا
ہو صفا اور دل اہلِ صفا یاد رہے
ہو یہ لبیک حرم یا یہ اذان مسجد
مے کشو قلقل مینا کی صدا یاد رہے
یاد اس وعدہ فراموش نے غیروں سے بدی
یاد کچھ کم تو نہ تھی اور سوا یاد رہے
خط بھی لکھتے ہیں تو لیتے ہیں خطائی کاغذ
دیکھیے کب تک انہیں میری خطا یاد رہے
دو ورق میں کف حسرت کے دو عالم کا ہے علم
سبق عشق اگر تجھ کو دلا یاد رہے
قتل عاشق پہ کمر باندھی ہے اے دل اس نے
پر خدا ہے کہ اسے نام مرا یاد رہے
طائر قبلہ نما بن کے کہا دل نے مجھے
کہ تڑپ کر یوں ہی مر جائے گا جا یاد رہے
جب یہ دیں دار ہیں دنیا کی نمازیں پڑھتے
کاش اس وقت انہیں نامِ خدا یاد رہے
ہم پہ سو بار جفا ہو تو رکھو ایک نہ یاد
بھول کر بھی کبھی ہووے تو وفا یاد رہے
محو اتنا بھی نہ ہو عشقِ بتاں میں اے ذوقؔ
چاہیے بندے کو ہر وقت خدا یاد رہے
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست