موت آتی ہے اجل کو یاں تلک آتے ہوئے

شیخ ابراہیم ذوق


کون وقت اے وائے گزرا جی کو گھبراتے ہوئے
موت آتی ہے اجل کو یاں تلک آتے ہوئے
آتش خورشید سے اٹھتا نہیں دیکھا دھواں
آ کھڑے ہو بام پر تم بال سکھلاتے ہوئے
چاک آتا ہے نظر پیراہن صبحِ بہار
کس شہیدِ ناز کو دیکھا ہے کفناتے ہوئے
وہ نہ جاگے رات کو اور ضد سے بختِ خفتہ کی
بج گیا آخر گجر زنجیر کھڑکاتے ہوئے
فہرست