اپنے سائے سے بھی جدا ہوں میں

میر مہدی مجروح


خانماں سوز ماسوا ہوں میں
اپنے سائے سے بھی جدا ہوں میں
غور ہر چند کر رہا ہوں میں
پر یہ کھلتا نہیں کہ کیا ہوں میں
نہیں اس رہ میں دوسرے کی کھپت
آپ ہی اپنا رہ نما ہوں میں
وہ اگر آ ملیں تو کیا ہے عجب
غم سے کچھ اور ہو گیا ہوں میں
دل ہے شوق گناہ سے لبریز
دیکھنے ہی کا پارسا ہوں میں
کیوں نہ ہو دار کا وہ مستوجب
جو کہ بندہ کہے خدا ہوں میں
سوزِ دل کر چکا ہے جسم کو خاک
اب ترا منتظر صبا ہوں میں
ہر لب زخم تن سے میں دمِ قتل
کہتا قاتل کو مرحبا ہوں میں
ان سا مغرور اور پرسشِ حال
خواب ہے یہ جو دیکھتا ہوں میں
مجھ سا ہو گا نہ سخت جاں کوئی
کہ شبِ ہجر میں جیا ہوں میں
میری پرسش جو کی کسی نے تو وہ
بولے ہاں صورت آشنا ہوں میں
شارح حالِ دل سمجھ مجھ کو
درد ہی درد ہو گیا ہوں میں
آنکھ تک ڈالتا نہیں گاہک
کچھ عجب جنس ناروا ہوں میں
روز و شب ہے خیال کاکل و زلف
کن بلاؤں میں پھنس رہا ہوں میں
مثل نشتر ہیں خار صحرائی
اور وحشت برہنہ پا ہوں میں
کل جو میں نے کہا کہ او بے مہر
دردِ فرقت سے مر رہا ہوں میں
ہنس کے بولے یہ سب بناوٹ ہے
آپ کو خوب جانتا ہوں میں
دکھنے کیا زخمِ دل لگے مجروحؔ
ہائے ہائے جو کر رہا ہوں میں
فہرست