تری مہندی تو سلامت ہے تو کیا کیا ہو نہیں سکتا

قمر جلالوی


یہ تو نے کیا کہا خونِ تمنا ہو نہیں سکتا
تری مہندی تو سلامت ہے تو کیا کیا ہو نہیں سکتا
پڑھے گر لاکھ ماہِ چرخ تم سا ہو نہیں سکتا
یہ صورت ہو نہیں سکتی یہ نقشہ ہو نہیں سکتا
کروں سجدے میں اے بت مجھ سے ایسا ہو نہیں سکتا
خدا تو ہو نہیں سکتا میں بندہ ہو نہیں سکتا
قفس سے چھوٹ کر صیاد جائیں تو کیا جائیں
ہمیں تو آشیاں بھی اب مہیا ہو نہیں سکتا
گناہ گاروں کا مجمع سب سے آگے ہو گا اے واعظ
تجھے دیدار بھی پہلے خدا کا ہو نہیں سکتا
نہ دینا آشیاں کو آگ ورنہ جان دے دیں گے
ہمارے سامنے صیاد ایسا ہو نہیں سکتا
انہیں پر منحصر کیا آزما بیٹھے زمانے کو
قمر سچ تو یہ ہے کوئی کسی کا ہو نہیں سکتا
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست