زہر بھی تجھ کو کیا نہیں ملتا

مصحفی غلام ہمدانی


تجھ سے گر وہ دلا نہیں ملتا
زہر بھی تجھ کو کیا نہیں ملتا
جس کو وہ زلف مار ڈالے ہے
سرِ مو خوں بہا نہیں ملتا
اور سب کچھ ملے ہے دنیا میں
لیکن اک آشنا نہیں ملتا
دلِ دیوانہ رات سے گم ہے
کہیں اس کا پتا نہیں ملتا
شیخ کلبے سے اٹھ نکل باہر
گھر میں بیٹھے خدا نہیں ملتا
درد و غم کو بھی ہے نصیبا شرط
یہ بھی قسمت سوا نہیں ملتا
اک نے پوچھا یہ مصحفیؔ سے بھلا
کیوں تو اے بے وفا نہیں ملتا
ہنس کے بولا کہ او میاں اس سے
کیا کروں دل مرا نہیں ملتا
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست